تفسير ابن كثير



سورۃ الصافات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ[88] فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ[89] فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ[90] فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ[91] مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ[92] فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ[93] فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ[94] قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ[95] وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ[96] قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ[97] فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ[98]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس اس نے ستاروں میں ایک نگاہ ڈالی۔ [88] پھر کہا میں تو بیمار ہوں۔ [89] تو وہ اس سے پیٹھ پھیر کر واپس چلے گئے۔ [90] تو وہ چپکے سے ان کے معبودوں کی طرف گیا اور اس نے کہا کیا تم کھاتے نہیں؟ [91] تمھیں کیا ہے کہ تم بولتے نہیں ؟ [92] پھر وہ دائیں ہاتھ سے مارتے ہوئے ان پر پل پڑا۔ [93] تو وہ دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئے۔ [94] اس نے کہا کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو؟ [95] حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔ [96] انھوں نے کہا اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو۔ [97] غرض انھوں نے اس کے ساتھ ایک چال چلنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انھی کو سب سے نیچا کر دیا۔ [98]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاه ستاروں کی طرف اٹھائی [88] اور کہا میں تو بیمار ہوں [89] اس پر وه سب اس سے منھ موڑے ہوئے واپس چلے گئے [90] آپ (چﭗ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں؟ [91] تمہیں کیا ہو گیا کہ بات تک نہیں کرتے ہو [92] پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے [93] وه (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے [94] تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو [95] حاﻻنکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے [96] وه کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دہکتی ہوئی) آگ میں اسے ڈال دو [97] انہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہی کو نیچا کر دیا [98]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی [88] اور کہا میں تو بیمار ہوں [89] تب وہ ان سے پیٹھ پھیر کر لوٹ گئے [90] پھر ابراہیم ان کے معبودوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ تم کھاتے کیوں نہیں؟ [91] تمہیں کیا ہوا ہے تم بولتے نہیں؟ [92] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا (اور توڑنا) شروع کیا [93] تو وہ لوگ ان کے پاس دوڑے ہوئے آئے [94] انہوں نے کہا کہ تم ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہو جن کو خود تراشتے ہو؟ [95] حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے [96] وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ پھر اس کو آگ کے ڈھیر میں ڈال دو [97] غرض انہوں نے ان کے ساتھ ایک چال چلنی چاہی اور ہم نے ان ہی کو زیر کردیا [98]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 88، 89، 90، 91، 92، 93، 94، 95، 96، 97، 98،

بت کدہ آذر اور ابراہیم علیہ السلام ٭٭

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ علیہ السلام نے اپنا دینی کام نکال لیا۔

وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں۔‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں۔‏‏‏‏

ایک حدیث میں آیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان «فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ» [37-الصافات:89] ‏‏‏‏ اور ان کا فرمان «‏‏‏‏قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ» [21-الأنبياء:63] ‏‏‏‏ اور ایک ان کا سارہ رضی اللہ عنہا کو اپنی بہن کہنا ۔ [صحیح بخاری:3357] ‏‏‏‏

تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بے نیاز کر دیتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، خلیل اللہ علیہ السلام کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو ۔ [تاریخ دمشق لا بن عساکر:320/2:ضعیف] ‏‏‏‏
7539

حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہو گیا ہے۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے۔‏‏‏‏ سعید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ علیہ السلام کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرما دیا کہ میں مقیم ہوں۔‏‏‏‏

اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقیناً ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے۔‏‏‏‏
7540

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب آپ علیہ السلام کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ علیہ السلام کو بھی مجبور کرنے لگی آپ علیہ السلام ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔‏‏‏‏ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ علیہ السلام نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔

وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ علیہ السلام چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں؟ یہاں آ کر خلیل اللہ علیہ السلام نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہو جائیں گے پھر ہم کھالیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ بولتے کیوں نہیں۔‏‏‏‏

اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جا سکے۔
7541

جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے۔ بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہوا؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کر لیا کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے (‏‏‏‏علیہ الصلوۃ والسلام)‏‏‏‏‏‏‏‏۔ اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل علیہ السلام کے پاس دوڑے، بھاگے، دانت پیستے، تلملائے کوستے گئے۔

خلیل اللہ علیہ السلام کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے۔‏‏‏‏ ممکن ہے کہ اس آیت میں «ما» مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ «الَّذِی» کے معنی میں ہو، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے ۔ [خلق افعال العباد:17:صحیح] ‏‏‏‏ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آ کر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہنچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کر دیا۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورۃ انبیاء [21-الأنبياء:1] ‏‏‏‏ میں گزر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے۔
7542



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.